ہرا ہے آج بھی، زخمِ گلابِ تنہائی
نحیف روح کو لاحق، شبابِ تنہائی
اتر گئے ہیں کئی آسمان سے سورج
فصیلِ درد پہ ہے، آفتابِ تنہائی
نظر کے سامنے دلکش مناظروں کے ہجوم
نہاں ہیں چشمِ تصور میں خوابِ تنہائی
لرز رہا ہے مِرا دل، کہ دل میں خیمہ زن
ہے پچھلی رات سے خوفِ سرابِ تنہائی
ہیں جس میں ہجر کے نالے رقم کئے، اس کے
سرِِ ورق پہ ہے لکھا؛۔۔ کتابِ تنہائی
تمام عمر بہائے ہیں اشک آنکھوں سے
کچھ اس طرح سے ملا ہے عذابِ تنہائی
برس رہے ہیں مِرے قلب و جان پر مہدی
مثالِ سنگِ جراحت سحابِ تنہائی
عمار مہدی
No comments:
Post a Comment