جب آمد نیند کی مِژگان کو بھاری کرے ہے
وہ کر کے نیم وا آنکھیں اداکاری کرے ہے
تِرے بارے میں خاص و عام کی رائے یہی ہے
پرانی چھوڑ دیوے ہے، نئی یاری کرے ہے
دلِ عشّاق پر اس کی ذرا سی دل رُبائی
کرے ہے کام جو ایندھن پہ چنگاری کرے ہے
جو سچ پوچھو نہیں بنتی طبیبوں سے شکایت
کمی بیشی اگر نسخے میں پنساری کرے ہے
وہ اس انداز سے دیوے ہےجُنبش پیرہن کو
ہوا میں اس کی خوشبو اور گُلکاری کرے ہے
وہ پاپی ہم سے تھوڑی دیر تو نظریں ملاوے
پتہ چل جاوے گا پھر کون فنکاری کرے ہے
نکلتا ہوں میں مثلِ تعزیہ جب غم سجا کر
گلی کوچوں میں ویرانی عزاداری کرے ہے
حسن ناراض یاروں کو بھلا کیسے بتاویں
محبت بھول جانے والی بیماری کرے ہے
احتشام حسن
No comments:
Post a Comment