عروج کیسا، زوال کیسا
بچھڑنا ہے تو ملال کیسا
یہاں سبھی کو ہیں روگ اپنے
کسے سنائیں ہے حال کیسا
ہے دل میں نفرت ملیں گے ہنس کے
منافقوں کا ہے جال کیسا
یہ نامِ الفت پہ لوٹتے ہیں
ہے عاجزی میں کمال کیسا
ہے حق کا نعرہ زباں پہ اپنی
جواب کیوں دیں سوال کیسا
چلو یہ مانا کے ہم برے ہیں
اے اچھے لوگو ہے حال کیسا
رمؔل مقدر میں گر ہو ظلمت
تو چاند کا یہ جمال کیسا
رمل اقبال
No comments:
Post a Comment