جس جا کروں نظر تِرے جلوے ہی پاؤں میں
پھر کس طرح سے غیب پہ ایمان لاؤں میں
کچھ اس ادا سے راز سے پردہ اٹھاؤں میں
شمشیر🗡 تم اٹھاؤ، سِپر کو گراؤں میں
کیا پوچھتے ہو جانے دو، عادت ہے یہ مِری
اب اشکِ بے سبب کا سبب کیا بتاؤں میں
لبریز ایک عمر سے ہے جامِ صبرِ دل
کب تک اک آرزو کو تھپک کر سُلاؤں میں
ناگاہ نام میرا تمہارے لبوں پہ آئے
افواہ بن کے شہرمیں اور پھیل جاؤں میں
"کس نے کہا تھا؟ "ٹھیک ہے منظور ہے ہمیں"
اوراقِ زندگی کے پلٹ کر دکھاؤں میں
عاطف علی
No comments:
Post a Comment