Monday, 18 January 2021

کرشمے تھے مسلسل چار دن فاقہ گزاری کے

 کرشمے تھے مسلسل چار دن فاقہ گزاری کے

کبوتر بار ہا رومال سے نکلا مداری کے🕊

ہمیں تو خون کے رشتے بھی کچے ہی نظر آئے

بزرگوں سے بڑے دعوے سنے تھے پائیداری کے

غنیمت ہے قلمکاری میں اک حرفِ ستائش بھی

مقدر سے ہی کچھ معیار پر آتا ہے قاری کے

تمہیں چوموں تو نادانی سمجھ کر درگزر کرنا

کبھی ہوتے ہیں لمحے عشق میں بے اختیاری کے

گنے جا کر ستارے کہکشاں کے ہر ستارے پر 

نتائج ایک جیسے ہی ملے اختر شماری کے

ہوئی بے منصفی تو چھینا جھپٹی پر اتر آئے

قطاروں میں کھڑے تھے منتظر جو اپنی باری کے

حسن میں نےحریفوں میں بدلتے حرف یوں دیکھے 

مخالف ہو گئی تحریر اپنے ہی لکھاری کے


احتشام حسن

No comments:

Post a Comment