کرشمے تھے مسلسل چار دن فاقہ گزاری کے
کبوتر بار ہا رومال سے نکلا مداری کے🕊
ہمیں تو خون کے رشتے بھی کچے ہی نظر آئے
بزرگوں سے بڑے دعوے سنے تھے پائیداری کے
غنیمت ہے قلمکاری میں اک حرفِ ستائش بھی
مقدر سے ہی کچھ معیار پر آتا ہے قاری کے
تمہیں چوموں تو نادانی سمجھ کر درگزر کرنا
کبھی ہوتے ہیں لمحے عشق میں بے اختیاری کے
گنے جا کر ستارے کہکشاں کے ہر ستارے پر
نتائج ایک جیسے ہی ملے اختر شماری کے
ہوئی بے منصفی تو چھینا جھپٹی پر اتر آئے
قطاروں میں کھڑے تھے منتظر جو اپنی باری کے
حسن میں نےحریفوں میں بدلتے حرف یوں دیکھے
مخالف ہو گئی تحریر اپنے ہی لکھاری کے
احتشام حسن
No comments:
Post a Comment