پاس ہم نے ہمیشہ پائے ہیں
جو کبھی لوٹ کر نہ آئے ہیں
ان کو بے دخل کر دیا جائے
خواب دیدار بِن بلائے ہیں
آزماتے ہیں لوگ قسمت کو
ہم مقدر کے آزمائے ہیں
مَسلکوں نے لڑا دیا، ورنہ
وہ ہمارے ہی بھائی جائے ہیں
دشمنی میں بھی وہ نہیں جائز
دوستی میں جو زخم کھائے ہیں
پہلے تُو تھا مِری رفاقت میں
اب تِری گفتگو کے سائے ہیں
آسماں کو نہیں پسند آئے
چند نغمے زمیں نے گائے ہیں
چہرۂ دوست پر تغافل کے
جان لیوا سحاب چھائے ہیں
اس قدر پُر فتن زمانے میں
ہم محبت کو ڈھونڈ لائے ہیں
اس نے آنا نہیں مگر ہم نے
ہر نئے سال گھر سجائے ہیں
ہجر کی سرد رات انگیٹھی میں
وصل کے خواب ہی جلائے ہیں
دل، ہم ایسے، لگے بفرمائش
درد کے چاک پر بنائے ہیں
لوگ کرنے لگے جبیں سائی
بُت انا کے جونہی گرائے ہیں
کچھ تو گڑبڑ ہے اس کہانی میں
سارے کردار بوکھلائے ہیں
پر اجازت نہیں ٹھہرنے کی
عشق رہ میں کئی سرائے ہیں
ہم فراموش ہو گئے پھر بھی
عہد الفاظ نے نبھائے ہیں
آپ اپنے سہی قمر آسی
ہم ہمارے نہیں پرائے ہیں
قمر آسی
No comments:
Post a Comment