Tuesday, 19 January 2021

ہم اپنے سر پہ تو سورج اٹھا کے چلتے ہیں

ہم اپنے سر پہ تو سورج اٹھا کے چلتے ہیں

سنا ہے برف کے گھر میں بھی لوگ جلتے ہیں

یہ کیسی رت ہے کہ نیزوں پہ سر اچھلتے ہیں

ہمارے شہر کے بچوں کے دل دہلتے ہیں

جو ریڈیم کے اجالے رخوں پہ ملتے ہیں

وہ اپنی ذات سے باہر نہیں نکلتے ہیں

وہ ہم کہ خار بھی ہم سے جدا نہیں ہوتے

وہ کیسے لوگ ہیں پھولوں کو بھی مسلتے ہیں

جو مجھ پہ گزرے ہیں بیتے ہیں جن کو جھیلا ہے

وہ حادثے مرے جام غزل میں ڈھلتے ہیں

فلک سے آگ برستی تو کوئی بات نہ تھی

زمین والے زمیں پر ہی زہر اگلتے ہیں

وہ فصل گل نہ سہی یہ خزاں سہی انور

کبھی تو کاغذی پھولوں کے دن بدلتے ہیں


محبوب انور

No comments:

Post a Comment