ہم اپنے سر پہ تو سورج اٹھا کے چلتے ہیں
سنا ہے برف کے گھر میں بھی لوگ جلتے ہیں
یہ کیسی رت ہے کہ نیزوں پہ سر اچھلتے ہیں
ہمارے شہر کے بچوں کے دل دہلتے ہیں
جو ریڈیم کے اجالے رخوں پہ ملتے ہیں
وہ اپنی ذات سے باہر نہیں نکلتے ہیں
وہ ہم کہ خار بھی ہم سے جدا نہیں ہوتے
وہ کیسے لوگ ہیں پھولوں کو بھی مسلتے ہیں
جو مجھ پہ گزرے ہیں بیتے ہیں جن کو جھیلا ہے
وہ حادثے مرے جام غزل میں ڈھلتے ہیں
فلک سے آگ برستی تو کوئی بات نہ تھی
زمین والے زمیں پر ہی زہر اگلتے ہیں
وہ فصل گل نہ سہی یہ خزاں سہی انور
کبھی تو کاغذی پھولوں کے دن بدلتے ہیں
محبوب انور
No comments:
Post a Comment