Tuesday 19 January 2021

سحر کو دھند کا خیمہ جلا تھا

 سحر کو دُھند کا خیمہ جلا تھا

ہیولیٰ کُہر کے اندر چھپا تھا

مکاں جسموں کی خوشبو سے تھا خالی

مگر سایوں سے آنگن بھر گیا تھا 

اڑا تھا میں ہواؤں کے سہارے 

رکی آندھی تو نیچے گر پڑا تھا 

لہو صدیق! اب تک بہہ رہا ہے

کبھی اک پھول ماتھے پر لگا تھا 


صدیق افغانی

No comments:

Post a Comment