خدا بناتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے
بشر مٹاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے
یہ کس نے کھینچ دیں نفرت کی ہم میں دیواریں
لہو بہاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے
عجیب خبط ہے اس شہرِ بے سماعت میں
صدا لگاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے
قیام اپنے لیے موت کے ہے مترادف
سفر بڑھاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے
دکھائی دیتا ہے یہ آئینے میں کون ہمیں
نظر چراتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے
ہم ایسے دھوپ گزیدہ کہ صحرا در صحرا
شجر اگاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے
ہم اپنے مدِ مقابل ہیں آپ ہی دائم
شکست کھاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے
دائم بٹ
No comments:
Post a Comment