Monday, 18 January 2021

خدا بناتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

 خدا بناتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

بشر مٹاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں  سے

یہ کس نے کھینچ دیں نفرت کی ہم میں دیواریں 

لہو بہاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

عجیب خبط ہے اس شہرِ بے سماعت میں

صدا لگاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

قیام اپنے لیے موت کے ہے مترادف

سفر بڑھاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

دکھائی دیتا ہے یہ آئینے میں کون ہمیں

نظر چراتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

ہم ایسے دھوپ گزیدہ کہ صحرا  در صحرا

شجر اگاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

ہم اپنے مدِ مقابل ہیں آپ ہی دائم

شکست کھاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے


دائم بٹ

No comments:

Post a Comment