جیسے آندھی کے خلاف ایک دِیا کچھ بھی نہیں
ویسے ہی ہجر کے آگے یہ قضا کچھ بھی نہیں
مجھ کو سو عیب نظر آتے تھے خود میں لیکن
آپ کی آنکھ سے دیکھا تو دِکھا کچھ بھی نہیں
حسرتِ وصل لیے دل میں نہ مر جاؤں کہیں
دِید سے بڑھ کے مِرا حرفِ دعا کچھ بھی نہیں
پیکرِ عجز تھا وہ شخص جو مغرور ہُوا
وہ سمجھتا تھا زمانے کی ہوا کچھ بھی نہیں
تُو نہیں سمجھے گا وہ کیوں نہیں سمجھا مجھ کو
اس حقیقت میں فسانے کے سوا کچھ بھی نہیں
روز اِک خواب لپکتا تھا مِری آنکھوں سے
نیند کو کھود کے ڈھونڈا تو مِلا کچھ بھی نہیں
ربط بے ربط ہوا، سلسلے آزار بنے
اب محبت میں نبھانے کو بچا کچھ بھی نہیں
غلام نبی اسیر
No comments:
Post a Comment