Wednesday, 3 February 2021

رات آئی لیے عذاب وہی

 رات آئی لیے عذاب وہی

دل کی الجھن ہمارے خواب وہی

سالہا سال سے نہیں بدلا

میں وہی، درد کا نصاب وہی

فاصلے قُربتوں میں ڈھل تو گئے 

پھر بھی نظروں میں اجتناب وہی

دل تو شدت پسند تھا، لیکن

اس پہ چاہت اور انتخاب وہی 

مجھ کو جھلسا گئے حوادث اور

ان کے چہرے پہ آب و تاب وہی

حاصلِ زندگی تجھے لکھا

کھول کے دیکھ لے تُو باب وہی


زریں منور

No comments:

Post a Comment