رات آئی لیے عذاب وہی
دل کی الجھن ہمارے خواب وہی
سالہا سال سے نہیں بدلا
میں وہی، درد کا نصاب وہی
فاصلے قُربتوں میں ڈھل تو گئے
پھر بھی نظروں میں اجتناب وہی
دل تو شدت پسند تھا، لیکن
اس پہ چاہت اور انتخاب وہی
مجھ کو جھلسا گئے حوادث اور
ان کے چہرے پہ آب و تاب وہی
حاصلِ زندگی تجھے لکھا
کھول کے دیکھ لے تُو باب وہی
زریں منور
No comments:
Post a Comment