داستاں میری زندگانی کی
ہے یہ تفسیر رائیگانی کی
میں بنا دشت ایک دریا سے
مجھ سے بنتی نہیں تھی پانی کی
ایک انسان ہو گیا ملبہ
داد بنتی ہے بے دھیانی کی
وہ ہوا پر برس رہی ہے کہ، کیوں
اس کی زلفوں سے چھیڑخانی کی
مجھ کو ایسے تِری ضرورت ہے
ایک مچھلی کو جیسے پانی کی
کل جلائی تھیں تیری تصویریں
آج تدفین تھی نشانی کی
زندگی کاٹنے میں کٹتی ہے
فصل بوئی ہوئی جوانی کی
ہجر کی رُت میں اپنے سینے پر
ہم نے زخموں کی باغبانی کی
اتنی جلدی نہ راکھ ہوتے ہم
تیری پھونکوں نے مہربانی کی
اک محبت ہی وہ صفت ہے جو
جاوِدانی ہے عمرِ فانی کی
اویس احمد ویسی
No comments:
Post a Comment