Wednesday, 3 February 2021

داستاں میری زندگانی کی

 داستاں میری زندگانی کی

ہے یہ تفسیر رائیگانی کی

میں بنا دشت ایک دریا سے

مجھ سے بنتی نہیں تھی پانی کی

ایک انسان ہو گیا ملبہ 

داد بنتی ہے بے دھیانی کی

وہ ہوا پر برس رہی ہے کہ، کیوں

اس کی زلفوں سے چھیڑخانی کی

مجھ کو ایسے تِری ضرورت ہے

ایک مچھلی کو جیسے پانی کی

کل جلائی تھیں تیری تصویریں

آج تدفین تھی نشانی کی

زندگی کاٹنے میں کٹتی ہے

فصل بوئی ہوئی جوانی کی

ہجر کی رُت میں اپنے سینے پر

ہم نے زخموں کی باغبانی کی

اتنی جلدی نہ راکھ ہوتے ہم

تیری پھونکوں نے مہربانی کی

اک محبت ہی وہ صفت ہے جو

جاوِدانی ہے عمرِ فانی کی 


اویس احمد ویسی

No comments:

Post a Comment