جوانی، حسن، میخانے، لب و رخسار بِکتے ہیں
حیا کے آئینے بھی اب سرِ بازار بکتے ہیں
شرافت، ظرف، ہمدردی دلوں سے ہو گئی رخصت
جہاں دولت چمکتی ہے، وہیں کردار بکتے ہیں
وہاں ہتھیار بِکنے کا عجب دستور نکلا ہے
ہمارے گاؤں میں اب تک گلوں کے ہار بکتے ہیں
ہمارے رہنماؤں کو خدا جانے ہُوا کیا ہے
کبھی اس پار بکتے ہیں، کبھی اس پار بکتے ہیں
ذرا خود سوچئے ہم پر تباہی کیوں نہ آئے گی
یہ دور ایسا ہے جس میں قوم کے کردار بکتے ہیں
نامعلوم
No comments:
Post a Comment