تمہاری راہ میں آیا ہوں گل بچھاتے ہوئے
چلے بھی آؤ زمانے کو تم بھلاتے ہوئے
دیارِ غیر میں جیسے ہو وہ مسیحا مِرا
جو رو رہا تھا مجھے بیڑیاں پہناتے ہوئے
کوئی بھی غم مجھے مایوس کر نہیں سکتا
رفو میں کرتا ہوں زخموں کو مسکراتے ہوئے
نہ کھائے گا یہاں ٹھوکر کوئی مسافر اب
چلا ہوں راہ کے پتھر، سبھی ہٹاتے ہوئے
یہ روشنی میرے دل کو دکھا رہی ہے بہت
مِرا مکان جلا ہے دیا 🪔جلاتے ہوئے
میں دیکھتا ہی رہا اس کو رہگزر کی طرح
بچھڑ گیا ہے کوئی دل مرا دکھاتے ہوئے
خدا ہی جانے کہاں پہنچے کارواں میرا
بھٹک گیا ہوں میں خود راستہ دکھاتے ہوئے
اب اعتبار بھلا کیوں کروں میں دنیا پر
ملے ہیں زخم بہت دوستی نبھاتے ہوئے
مجھے وہ اپنا بنائے گا کیسے اے منظر
جھجھک رہا ہے جو مجھ کو گلے لگاتے ہوئے
منظر اعظمی
No comments:
Post a Comment