Monday, 1 February 2021

قافیہ بحر کہ بندش نہیں دشوار بنے

 قافیہ بحر کہ بندش نہیں دشوار بنے

ہم غزل کیلئے ہر سمت سے ہموار بنے

کتنی خوشبوئیں پروئی گئیں اک دھاگے میں

جسم چھِدوا کے کئی پھول تِرا ہار بنے

اے مصور ہمیں تصویر میں اس طرح سجا

عکس کے روپ میں کاغذ پہ فقط پیار بنے

قیس سے کہنا کہ دل سے مجھے تسلیم کرے

پیشتر اس سے کہ صحراؤں میں دیوار بنے

تو مِرے حال کا اس بات سے اندازہ لگا

رائیگاں ہوتے ہوئے لوگ مِرے یار بنے

کرب، دکھ، درد، اداسی، غم ہجراں، وحشت

گھر سمجھ کر مِرے چہرے کا پریوار بنے

اختیارات مِری جان خدا دیتا ہے

کوئی راکب ہو تو پھر آپ کا مختار بنے


راکب مختار

No comments:

Post a Comment