قافیہ بحر کہ بندش نہیں دشوار بنے
ہم غزل کیلئے ہر سمت سے ہموار بنے
کتنی خوشبوئیں پروئی گئیں اک دھاگے میں
جسم چھِدوا کے کئی پھول تِرا ہار بنے
اے مصور ہمیں تصویر میں اس طرح سجا
عکس کے روپ میں کاغذ پہ فقط پیار بنے
قیس سے کہنا کہ دل سے مجھے تسلیم کرے
پیشتر اس سے کہ صحراؤں میں دیوار بنے
تو مِرے حال کا اس بات سے اندازہ لگا
رائیگاں ہوتے ہوئے لوگ مِرے یار بنے
کرب، دکھ، درد، اداسی، غم ہجراں، وحشت
گھر سمجھ کر مِرے چہرے کا پریوار بنے
اختیارات مِری جان خدا دیتا ہے
کوئی راکب ہو تو پھر آپ کا مختار بنے
راکب مختار
No comments:
Post a Comment