موت کیا ختم حیات غم دنیا کرنا
حاصل زیست ہے مرنے کی تمنا کرنا
قصۂ طور کا ہے مجھ کو اعادہ کرنا
ایک بار اور کرم برق تجلیٰ کرنا
جب کہ آتا ہے نظر تیرا ہی جلوہ ہر سو
پھر تو بیکار نگاہوں سے ہے پردہ کرنا
آبرو کھوئی سر بزم گرا کر آنسو
چشم خوں بار کو لازم نہ تھا رسوا کرنا
سیکھ لے ہم سے جبیں سائی کعبہ زاہد
ہم کو آتا ہے در یار پہ سجدہ کرنا
تھی کبھی دل میں تمناؤں کی دنیا لیکن
اب تو آتا ہی نہیں دل کو تمنا کرنا
کھیلتا جن کے سفینہ سے ہے طوفاں ان کو
ناروا ہے ہوس ساحل دریا کرنا
اک نظر دیکھ لو پہلے مری حالت آ کر
پھر سمجھنے کو پڑی عمر ہے سمجھا کرنا
تم پئے مشق ستم تیغ اٹھاؤ تو سہی
شوق سے پھر سر افقرؔ کا نظارہ کرنا
افقر موہانی
No comments:
Post a Comment