بستی والوں نے اسے کب کوئی چھوڑا ہو گا
جب کوئی جان بچاتے ہوئے دوڑا ہو گا
زندگی دشت نوردی میں گزاری تُو نے
جانے کتنوں کی کلائی کو مروڑا ہو گا
ایسی باتوں پہ مِری جان لڑائی کیسی
تُو نے چھوڑا ہے تو کچھ سوچ کے چھوڑا ہو گا
ہوش صحرا کے ٹھکانے نہ رہے ہوں گے تب
رب نے جب پتھروں سے پانی نچوڑا ہو گا
میں اسے مانوں گا اقلیمِ وفا کا سلطاں
جس نے دریاؤں کا رخ تنکوں سے موڑا ہو گا
مبشر واصل
No comments:
Post a Comment