جانے کیا شام کر گیا آنسو
مجھ کو ناکام کر گیا آنسو
آنکھ سے گِر گیا ہے دامن پر
ضبط بد نام کر گیا آنسو
وہ مجھے چھوڑ جانے والا تھا
اور پھر کام کر گیا آنسو
صبر کی چھت لہو اُگلنے لگی
کیا در و بام کر گیا آنسو
آنکھ انمول تھی مِری ساجد
آج نیلام کر گیا آنسو
ساجد محمود
No comments:
Post a Comment