Sunday, 21 February 2021

خشت در خشت اک آزار میں رکھا ہوا ہے

 خِشت در خِشت اک آزار میں رکھا ہوا ہے

اس نے دل میں نہیں، دیوار میں رکھا ہوا ہے

اے محبت کی نموداری پہ خوش ہوتے دل

عرصۂ ہجر بھی آثار میں رکھا ہوا ہے

ہر گھڑی گِریہ، عزاداری، دعائیں، ماتم

وقت نے شام کے بازار میں رکھا ہوا ہے

کیا انا دار زباں کھول کے شرمندہ ہو؟

آئینہ دستِ طلب گار میں رکھا ہوا ہے

دیکھھ میثاقِ محبت سے مکرنے والے

تجھے اب تک دلِ سرشار میں رکھا ہوا ہے

عورتیں، خواب، سماوات، زمانے، حیرت

یعنی کیا کیا تیرے اسرار میں رکھا ہوا ہے

ہم ہیں موجود و میسر سے تہی پہلو لوگ

غیر موجود کو درکار میں رکھا ہوا ہے

اے غنیم اس کو بسر کرنے کی تیاری کر

عرصۂ زخم جو تلوار میں رکھا ہوا ہے

اتنی توفیق میسر ہے سو میں نے احمد

عشق کو عالمِ انکار میں رکھا ہوا ہے


احمد کامران

No comments:

Post a Comment