Sunday, 21 February 2021

شہر بھر کے آئینوں پر خاک ڈالی جائے گی

 شہر بھر کے آئینوں پر خاک ڈالی جائے گی

آج پھر سچائی کی صورت چھپا لی جائے گی

اس کی آنکھوں میں لپکتی آگ ہے بے حد شدید

سوچتا ہوں یہ قیامت کیسے ٹالی جائے گی

مشتعل کر دے گا اس کو اک ذرا سا احتجاج

مجھ پہ کیا گزری ہے اس پر خاک ڈالی جائے گی

قید کا احساس بھی ہو گا نہ ہم کو دوستو

یوں ہمارے پاؤں میں زنجیر ڈالی جائے گی

اے محبت لفظ بن کر اتنی سنجیدہ نہ ہو

ایک دن تو بھی کتابوں سے نکالی جائے گی

شرم سے خورشید اپنا منہ چھپا لے گا کہیں

روز روشن میں بھی دانش رات ڈھالی جائے گی


سرفراز دانش​

No comments:

Post a Comment