کون تھا جو مجھے بددعا دے گیا
بس خیالوں کا اک سلسلہ دے گیا
دل کی بستی چراغوں سے محروم ہے
اپنے دامن کی ایسی ہوا دے گیا
اپنے چہرے کو دیکھے زمانہ ہوا
اور مِرے ہاتھ میں آئینہ دے گیا
تیری پلکوں کے جگنو سلامت رہیں
اک بھکاری مجھے یہ دعا دے گیا
میری آنکھوں سے نیندیں بہت دور ہیں
مجھ کو جینے کی کیسی قضا دے گیا
تُو نے تسنیم چاہا جسے ٹوٹ کے
وہ وفا کے بدلے جفا دے گیا
تسنیم صدیقی
No comments:
Post a Comment