ہجرت
چڑھ آیا جب قاف نگر پر لشکر سرد ہواؤں کا
سورج دھند میں لپٹے نیزے لے کر دکن بھاگ گیا
پسپا ہوتے دیکھ کے اُس کو پنچھی دُور پہاڑوں کے
دیس پرائے ہجرت کر کے بستی بستی پھیل گئے
پتلی گردن والی کُونجیں اُڑتے اُڑتے شام ڈھلے
میرے گاؤں کے پچھم میں جھیل کنارے آ بیٹھیں
سورج ڈوب رہا تھا اور شفق پر سونا بِکھرا تھا
ایسے میں اِک جال لیے بے نام شکاری آ پہنچا
گھات لگا کر معصوموں پر اُس نے اک تکبیر کہی
جینے کی امید لیے جو اونچے سرد پہاڑوں سے
اڑتے اڑتے میرے وطن میں سو سو ڈاریں آئی تھیں
تیز شعاعوں کی دھرتی نے ان کو سچ مچ راکھ کیا
علی اکبر ناطق
No comments:
Post a Comment