تِرے خیال کی لو میں جدھر جدھر جائیں
چراغ جل اٹھیں منظر نکھر نکھر جائیں
جو چاہتے ہیں سرِِ منزلِ سحر جائیں
سکوتِ شام کی گہرائی میں اتر جائیں
وہ خاک زمزمۂ آگہی خریدیں گے
شکستِ ساز کی جھنکار سے جو ڈر جائیں
یہ آرزو ہے کہ مہکائیں باغِ عالم کو
برنگِ نکہتِ گُل چار سُو بکھر جائیں
تلاشِ ذات نہ جانے ہمیں کہاں لے جائے
نہ جانے اپنے تعاقب میں ہم کدھر جائیں
میں اپنے بکھرے ہوئے خواب چُن رہا ہوں ابھی
طلوعِ صبح کے لمحے ذرا ٹھہر جائیں
کہیں دکھائی نہ دے اور ہر جگہ موجود
"یقیں نہ ہو تو ہم اہلِ شعور مر جائیں"
وطن ہمارا ستاروں سے ماوراء ہے کہیں
کشش زمین کی چھوڑے تو اپنے گھر جائیں
ازل کا عہد ہے رشتہ بپا حزیں ورنہ
تعینات کی حد سے تو اب گزر جائیں
حزیں صدیقی
No comments:
Post a Comment