اک حویلی کے عقب میں جل اٹھی خیمے کی آگ
پھر تو ایسی بڑھ چلی، بڑھتی گئی خیمے کی آگ
چاند اپنی چاندنی میں بُخل سے لیتا تھا کام
چاندنی کی تھی تمنائی بڑی خیمے کی آگ
مدتیں گزریں حویلی وہ کھنڈر بن بھی چکی
ہے مگر ویسے کی ویسی آج بھی خیمے کی آگ
سانحہ تو دیکھیئے کل تک جو تھے محفل کی جاں
آج ان کے پاس ہے بس خامشی، خیمے کی آگ
گویا حربہ یہ امیرِ شہر کی ایجاد ہے
چھین لے گا شہر کی اب روشنی، خیمے کی آگ
ہم نے سوچا تھا کوئی دن آ رہی ہے فصلِ گُل
کر رہی ہے پیش منظر اور ہی خیمے کی آگ
کس نے حسرتؔ گُلشنِ دل میں اُگائیں نفرتیں
کھا گئی ہے اب تو یارو آشتی خیمے کی آگ
رشید حسرت
No comments:
Post a Comment