Monday, 1 February 2021

سفینہ موج بلا کے لیے اشارہ تھا

 سفینہ موج بلا کے لیے اشارا تھا

نہ پھر ہوا تھی موافق نہ پھر کنارا تھا

ہم اپنے جلتے ہوئے گھر کو کیسے رو لیتے

ہمارے چاروں طرف ایک ہی نظارا تھا

یہ واقعہ جو سنیں گے تو لوگ ہنس دیں گے

ہمیں ہماری ہی پرچھائیوں نے مارا تھا

طلسم توڑ دیا اک شریر بچے نے

مِرا وجود اداسی کا استعارا تھا

یہ حوصلہ تو گُلوں کا تھا ہنس پڑے لیکن

انہیں کسی کا تبسم بھی کب گوارا تھا

غرور عقل میں ایمان بھی گنوا بیٹھے

یہ اک جزیرہ تو سب کے لیے کنارا تھا

اسے بھی آج کیا میں نے آندھیوں کے سپرد

بہت دنوں سے مِرے پاس اک شرارہ تھا

ہم اس کو کیسے سناتے کہانیاں دانش

کتاب دل کا ہر اک صفحہ پارہ پارہ تھا


سرفراز دانش​

No comments:

Post a Comment