خاموش اندھیری راتوں میں جب ساری دنیا سوتی ہے
اک ہجر کا مارا روتا ہے، اور شبنم آنسو دھوتی ہے
پہلے تو محبت رفتہ رفتہ ہوش و خرد کو کھوتی ہے
پھر یاد کسی کی آ آ کر کانٹے سے دل میں چبھوتی ہے
چارہ گر بس یہ بتلا دے وہ جب مجھ سے چُھو جاتے ہیں
کیوں جسم میں موجیں اٹھتی ہیں کیوں نبض میں سُرعت ہوتی ہے
سب کہتے ہیں میں دیوانہ ہوں میں کہتا ہوں سب دیوانے ہیں
میں دنیا بھر پر ہنستا ہوں، دنیا بھر مجھ پر روتی ہے
امید سے رشتہ ٹوٹ گیا، تم کیا چُھوٹے دل چھوٹ گیا
ارمانوں کی بڑھتی کھیتی کو سیلِ یاس ڈبوتی ہے
دل اک نہ اک دن جانا تھا یہ دن بھی آخر آنا تھا
طالب! تم اس کا غم نہ کرو یہ چیز پرائی ہوتی ہے
طالب باغپتی
No comments:
Post a Comment