اقتباس از مثنوی
یہ بولا آہ بھر با جانِ غمناک
کہ ہے آخر یہ دنیا بسر خاک
کوئی کیا اس کے اوپر دل لگاوے
دو روزہ زندگی پر جی جلاوے
ہوا یاں کب کسی کا کام پورا
کہ ہے یہ کام دنیا سب ادھورا
حباب آسا ہے دنیا امرِ موہوم
ثباتِ زندگی دم بھر ہے معلوم
بخیر اوس کا نہیں از بسکہ انجام
کہ ہے اس کی سحر بھی بدتر از شام
بشر کے حق میں شر ہے چاہ اس کی
پر از خارِ ہوس ہے راہ اس کی
عشرت بریلوی
No comments:
Post a Comment