Monday, 1 February 2021

خوف کی لہر اک اٹھی ہے ابھی

تضمین بر کلام ناصر کاظمی


خوف کی لہر اک اُٹھی ہے ابھی

ہر طرف کھلبلی مچی ہے ابھی

یہ وبا سُن}ی ہے کہ شیعہ ہے؟

یہی تحقیق چل رہی ہے ابھی

"کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی"

پھر وبا بھی نئی نئی ہے ابھی

قہوہ پینا ہے، بھاپ لینی ہے

پاس میں کیتلی رکھی ہے ابھی

یہ وبا ختم ہو گی ہفتوں میں

ایک "امداد" کی کمی ہے ابھی

تُو قرنطینہ میں ہے مولانا؟

یہ نظر تُجھ کو ڈُھونڈتی ہے ابھی

ایم این اے شہر کے نہیں مِلتے

موت اُن کو پڑی ہوئی ہے ابھی

عشقیہ شعر ہوں تو کیسے ظفر؟

بے کلی سی ہے، بے بسی ہے ابھی

کچھ کرونا کا خوف لاحق ہے

اور بیگم بھی جاگتی ہے ابھی


عمران ظفر

No comments:

Post a Comment