Monday, 1 February 2021

دل سے اٹھتا ہے دھواں رقص شرر ختم ہوا

 دل سے اٹھتا ہے دھواں رقصِ شرر ختم ہوا

اُس سے دکھ درد کا رشتہ تھا مگر ختم ہوا

آخرش ٹوٹ گری سر پہ لٹکتی🗡 تلوار

آج سے تیرے بچھڑ جانے کا ڈر ختم ہوا

گھر بناتے تھے دلوں میں کبھی ہم خانہ بدوش

اب تو لگتا ہے کہ وہ سارا ہنر ختم ہوا

میں کہیں اور روانہ تھا زمیں اور طرف

سو کہیں پہنچا نہیں، اور سفر ختم ہوا

میری آنکھوں پہ رکھے ہاتھ، سنا ہے اس نے

پاؤں پانی میں اتارا تو بھنور ختم ہوا

ہم میں معمول کا ہی جھگڑا ہوا تھا اک روز

اور پھر سلسلۂ خیر و خبر ختم ہوا

اس نے اک بار گرایا تھا نظر سے عارض

پھر بلندی سے مِرا خوف و خطر ختم ہوا


آفتاب عارض

No comments:

Post a Comment