شورشِ غم سے مِری آنکھیں پریشاں ہو گئیں
ایڑیاں تھیں رقص میں، زلفیں ہراساں ہو گئیں
کان میں چیخیں مِرے، کچھ اس طرح تنہائیاں
سر اٹھاتیں حسرتیں نذرِ چراغاں ہو گئیں
بعد مدت کے جو میرے فون کی گھنٹی بجی
بعد مدت بارشیں آنکھوں کی مہماں ہو گئیں
وجد کی حالت میں مجھ کو دیکھ کر ویرانیاں
رو پڑیں سجدے میں گر کر اور پریشاں ہو گئیں
کہہ رہی تھی میں غزل کہنے کو اس قرطاس پر
سسکیاں قرطاس پر لیکن نمایاں ہو گئیں
عمر بھر جن کو دیا تھا آنسوؤں کا پیرہن
آج دنیا پر وہ سوچیں میری عریاں ہو گئیں
سوچتی ہوں آج میں زریاب جانے کس طرح
مشکلیں جو مشکلیں تھیں مجھ پہ آساں ہو گئیں
ہاجرہ نور زریاب
No comments:
Post a Comment