Friday 25 June 2021

اداسی ایک لڑکی ہے

 اداسی ایک لڑکی ہے


دسمبر کی گھنی راتوں میں

جب بادل برستا ہے

لرزتی خامشی

جب بال کھولے

کاریڈوروں میں سسکتی ہے

تو آتشدان کے آگے

کہیں سے وہ دبے پاؤں

مِرے پہلو میں آتی ہے

اور اپنے مرمریں ہاتھوں سے

میرے بال سلجھاتے ہوئے

سرگوشیوں میں درد کے قصے سناتی ہے

جولائی کی دوپہریں

ممٹیوں سے جب اتر کر

آنگنوں میں پھیل جاتی ہیں

باتوں کے بسکٹ پھول جاتے ہیں

تو وہ بھی جنگلی بیلوں سے

اٹھتی خوشبوؤں سے جسم پاتی ہے

مِرے نزدیک آتی ہے

مِری سانسوں کی پگڈنڈی پہ

دھیرے دھیرے چلتی ہے

مِرے اندر اترتی ہے


انوار فطرت

No comments:

Post a Comment