یہ نہ سوچا پُرکھوں نے کہ مقصد تو سیرابی تھا
اب کی بار بھی آیا ہے جو ریلا وہ سیلابی تھا
فصلیں، ڈنگر، گھر کی چھت تک بہہ جانے کی خبر ملی ہے
گاؤں سے اک خط آیا تو سارا منظر آبی تھا
سرسوں چُننے والی کو دوا ملی، نہ غذا ملی
پِیلیا اس کو نِگل گیا ہے جس کا رنگ گلابی تھا
جاگتی آنکھوں کے اک خواب نے آخر اس کو مار دیا
آخری خبریں آنے تک جس کا مرض بے خوابی تھا
ٹوبھا اشکوں سے بھر جائے تو پھر ڈوبنا بنتا ہے
میں روہی کی آنکھ میں ڈوبا، کب وہ پاٹ چنابی تھا
برف سے بھاگنے والا آخر پیٹ کی دوزخ میں جا پہنچا
ہجرت جس کی موت بنی ہے، پنچھی وہ ‘مرغابی’ تھا
عشق میں اپنے سارے پتے تیرے سامنے پھینک دئیے
دل کا سمجھ کر کھیلے جس کو کھیل وہ بس اعصابی تھا
اب وہ اپنے زخم گِنے، یا دل پر چاہے ہاتھ رکھے
اس نے پہلے غزل کہی تھی، میرا شعر جوابی تھا
تیرے ہونٹوں پر آنے سے شعر میں جِدت آتی ہے
تُو نے ڈھولک پر گایا ہے جو کہ گیت ربابی تھا
رباب حیدری
No comments:
Post a Comment