جنوں کی ہر زنجیر کی کنجی تمہارے پاس ہے
سن اے نازک اندام
یہ ہوا کی سرسراہٹ ہے
یا تمہارے کومل قدموں کی چاپ
میرے پیروں میں پڑی بیڑیوں کی
یا تمہارے پازیب کی جھنکار
جسے میں روز سنتا ہوں
جنوں حد سے گزرتا ہوں
میں صدیوں سے بندھا ایک قیدی ہوں
نیلی دھند سے پرے جزیروں کا
اسیر ہوں جنوں کے اسیروں کا
سرمئی اندھیروں کا
مخملی اجالوں کا
مگر اس دل جزیر کا ہر راستہ
تمہاری آنکھوں کے کاجل گھر کو جاتا ہے
اور سب یہ راز جانتے ہیں
کہ محبت نگر کے اس قیدی سے بندھی
جنوں کی ہر زنجیر کی کنجی
تمہارے پاس ہے
صرف تمہارے پاس
ہاشم ندیم
No comments:
Post a Comment