خواب تو دیکھ چکے یار! سہانے کتنے
اب یہ بتلا کہ تِرے غم ہیں اٹھانے کتنے
پھول کِھلنے بھی نہ پائے تھے کہ چپکے چپکے
گشت کرنے لگے خوشبو کے دِوانے کتنے
تجھ کو معلوم نہیں ایک تِرے دل کے سوا
تیرے جوگی ہوئے دنیا میں ٹھکانے کتنے
دھوپ اس جسم کے سورج کی چرانے کے لیے
ہجر کی رات تراشے ہے بہانے کتنے
شمعِ شب، شعرِ شفق، شامِ شباب اور شراب
شوخئ لب کے ہیں اے ہوش فسانے کتنے
ہوش رامپوری
No comments:
Post a Comment