رنج میں ڈوبے خیالات کا دُکھ جانتے ہیں
زہر میں ڈوبی ہوئی بات کا دکھ جانتے ہیں
سانس چلتا ہے کہ آری ہمیں ادراک ہے سب
عشق اور عشق کی بہتات کا دکھ جانتے ہیں
زود گو بھی ہو مگر کہہ نہ سکے بات کبھی
شعر کہتے ہوئے محتاط کا دکھ جانتے ہیں
دوست تو دوست ہیں دشمن کو بھی بیٹی نہ ملے
آپ کی ایک ہے، ہم سات کا دکھ جانتے ہیں
سارے برتن بھی بھریں پھر بھی نہ پانی کم ہو
خستہ گھر والے ہیں برسات کا دکھ جانتے ہیں
سرد موسم میں سلگتے ہوئے کچھ لوگ یہاں
بھیک میں آگ کی خیرات کا دکھ جانتے ہیں
ریت کو پیاس میں پانی نہیں سمجھا ہم نے
ہم سے پیاسے تبھی سادات کا دکھ جانتے ہیں
سوکنیں پہلے تھیں پھر بہنیں بنیں قسمت سے
ایک بستر کی مساوات کا دکھ جانتے ہیں
ہم نے غربت کو بہت پاس سے دیکھا ہے حنا
اور ہم زر کے کمالات کا دکھ جانتے ہیں
حنا عنبرین
No comments:
Post a Comment