آؤ چلو جنوں کا تقاضا نبھائیں گے
صحرا کی ریت بالوں میں اپنے سجائیں گے
اس بے وفا کا نام لکھیں گے مٹائیں گے
کُھل کر وفا کی موت کا ماتم منائیں گے
دنیا کو یہ عجیب تماشا دکھائیں گے
اشکوں سے سارے دشت کو دریا بنائیں گے
پُر ہول وادیوں کو رُلائے گا سازِ غم
کچھ اس ادا سے نغمۂ وحشت سنائیں گے
تھک کر کے لَوٹ آئیں گے غم کے مزار میں
سوئیں گے اس طرح سے کہ فتنے جگائیں گے
اے بے وفا تجھے تِرے وعدوں کی ہے قسم
آ، روک لے کہ پھر کبھی واپس نہ آئیں گے
افضال اکمل قاسمی
No comments:
Post a Comment