ہتھیلی پر ستارہ رکھ دیا تھا
محبت کا اشارہ رکھ دیا تھا
میں دریا کی روانی میں مگن تھا
مگر اس نے کنارہ رکھ دیا تھا
تمہارا نام آنکھوں پر اٹھا کر
نجانے کیوں دوبارہ رکھ دیا تھا
مِری آنکھوں میں بس اک عشق تھا سو
تِرے قدموں میں سارا رکھ دیا تھا
مرے چہرے پہ رکھی آنکھ زاہد
پھر اس میں اک نظارہ رکھ دیا تھا
زاہد شمسی
No comments:
Post a Comment