Saturday, 26 June 2021

ہتھیلی پر ستارا رکھ دیا تھا

 ہتھیلی پر ستارہ رکھ دیا تھا 

محبت کا اشارہ رکھ دیا تھا 

میں دریا کی روانی میں مگن تھا 

مگر اس نے کنارہ رکھ دیا تھا

تمہارا نام آنکھوں پر اٹھا کر

نجانے کیوں دوبارہ رکھ دیا تھا

مِری آنکھوں میں بس اک عشق تھا سو

تِرے قدموں میں سارا رکھ دیا تھا

مرے چہرے پہ رکھی آنکھ زاہد

پھر اس میں اک نظارہ رکھ دیا تھا


زاہد شمسی

No comments:

Post a Comment