Sunday 27 June 2021

رات ہوئی پھر ہم سے اک نادانی تھوڑی سی

 رات ہوئی پھر ہم سے اک نادانی تھوڑی سی

دل سرکش تھا کر بیٹھا من مانی تھوڑی سی

تھوڑی سی سرشاری نے دی گہری دھند میں راہ

بہم ہوئی آنکھوں کو تب آسانی تھوڑی سی

بچھڑا وہ تو لوٹ آنے کی راہ نہ کھوٹی کی

کنج میں دل کے چھوڑ گیا ویرانی تھوڑی سی

یا رب پھر سے بھیج طلسمِ ہوشربا کوئی

وقت عطا کر پھر ہم کو حیرانی تھوڑی سی

ہم ایسے بے مایہ کب تھے ہاتھوں ہاتھ بکیں

بازاروں تک لے آئی ارزانی تھوڑی سی

نئی غزل کا روپ نیا ہو، لیکن ایسا ہو

غزلوں میں ہو آئینہ سامانی تھوڑی سی

اس کے چال چلن پر مت جا یار مجیبی تُو

یوں بھی جوانی ہوتی ہے دیوانی تھوڑی سی


صدیق مجیبی

No comments:

Post a Comment