رات ہوئی پھر ہم سے اک نادانی تھوڑی سی
دل سرکش تھا کر بیٹھا من مانی تھوڑی سی
تھوڑی سی سرشاری نے دی گہری دھند میں راہ
بہم ہوئی آنکھوں کو تب آسانی تھوڑی سی
بچھڑا وہ تو لوٹ آنے کی راہ نہ کھوٹی کی
کنج میں دل کے چھوڑ گیا ویرانی تھوڑی سی
یا رب پھر سے بھیج طلسمِ ہوشربا کوئی
وقت عطا کر پھر ہم کو حیرانی تھوڑی سی
ہم ایسے بے مایہ کب تھے ہاتھوں ہاتھ بکیں
بازاروں تک لے آئی ارزانی تھوڑی سی
نئی غزل کا روپ نیا ہو، لیکن ایسا ہو
غزلوں میں ہو آئینہ سامانی تھوڑی سی
اس کے چال چلن پر مت جا یار مجیبی تُو
یوں بھی جوانی ہوتی ہے دیوانی تھوڑی سی
صدیق مجیبی
No comments:
Post a Comment