Sunday 27 June 2021

ایسے بھی کچھ غم ہوتے ہیں

 ایسے بھی کچھ غم ہوتے ہیں

جو امید سے کم ہوتے ہیں

آگے آگے چلتا ہے رستہ

پیچھے پیچھے ہم ہوتے ہیں

راگ کا وقت نکل جاتا ہے

جب تک سُر قائم ہوتے ہیں

باہر کی خُشکی پہ نہ جاؤ

پتھر اندر نَم ہوتے ہیں

ملنے کوئی نہیں آتا جب

اپنے آپ میں ہم ہوتے ہیں

چہروں کی تو بھِیڑ ہے لیکن

سہی سلامت کم ہوتے ہیں

نظمیں، غزلیں، خط، افسانے

اس کے نام رقم ہوتے ہیں

دل کے شیلف میں شاہد کتنی

یادوں کے البم ہوتے ہیں


شاہد میر

No comments:

Post a Comment