لاعلم
میری خانقاہ میں
لوگوں کا ہجوم
میری مسافت سے
لوٹنے کا منتظر تھا ملکیت کا نشہ
سرور کی موسیقی بکھیر رہا تھا
میں نے آنکھیں بند کر کے
ہر طالب کو خوابوں کے تحفے عطا کئے
اور خود آرام کی نیند سو کر
خواب دیکھنے لگی
پھر ایک صدا آئی
لاعلم‘ تم نے’
لوگوں کو خوابوں کے تحفے تو عطا کر دئیے
کیا یہ تمہیں معلوم نہیں
کہ ان کے پاس
آنکھیں تو ہیں، نیند نہیں
شائستہ یوسف
No comments:
Post a Comment