سنو، اب ہم محبت میں بہت آگے نکل آئے
کہ اک رستے پہ چلتے چلتے سو رستے نکل آئے
اگرچہ کم نہ تھی، چارہ گرانِ شہر کی پُرسش
مگر کچھ زخم نا دیدہ بہت گہرے نکل آئے
محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی
ہمارے درمیاں یہ فاصلے، کیسے نکل آئے
بہت دن تک حصار نشہ یکتائی میں رکھا
پھر اس چہرے کے اندر بھی کئی چہرے نکل آئے
پرانے زخم بھرتے ہی، نئے زخموں کے شیدائی
مزاج آئینہ اوڑھے ہوئے گھر سے نکل آئے
تضادِ ذات کے باعث کھلا وہ کم سخن ایسا
ادھوری بات کے مفہوم بھی پورے نکل آئے
خالد معین
No comments:
Post a Comment