کس کی کھوئی ہوئی ہنسی تھی میں
کس کے ہونٹوں پہ آ گئی تھی میں
میں کسی شخص کی اداسی تھی
سرد لہجے میں بولتی تھی میں
دن ڈھلے لوٹتے پرندوں کو
گھر کی کھڑکی سے دیکھتی تھی میں
کاش، اک بار دیکھ لیتے تم
راستے میں پڑی ہوئی تھی میں
اب جو افسُردگی کی چادر ہوں
موسمِ گُل کی اوڑھنی تھی میں
خود کو دریافت کرنے نکلی ہوں
یعنی خود سے کہیں خفی تھی میں
گُنگناتا تھا شب کے پچھلے پہر
جانے کس دل کی راگنی تھی میں
پھر دسمبر تھا سرد راتیں تھیں
شہر سوتا تھا جاگتی تھی میں
اس نے جب ہاتھ ہاتھ پر رکھا
سُرخ پھُولوں سے بھر گئی تھی میں
جانے کیا بات یاد آئی مجھے
ہنستے ہنستے جو رو پڑی تھی میں
میں نے اک شام پا لیا تھا اُسے
اُس سے اک رات کھو گئی تھی میں
جانتا کون مجھ کو میرے سوا؟
گھر کے اندر بھی اجنبی تھی میں
خود سے ٹکرا گئی تھی جاناں کہیں
اپنے رستے میں آ گئی تھی میں
جاناں ملک
No comments:
Post a Comment