ایسے منظر کھلے تھے کہ بینائی سے خوف آنے لگا
رات پہلی دفعہ مجھ کو تنہائی سے خوف آنے لگا
داستاں گو نے یوسف کا قصہ سنایا پڑاؤ کی شب
پھر نہ سویا کوئی، بھائی کو بھائی سے خوف آنے لگا
ایک دن یوں ہوا اس کے چہرے پہ تازہ گلاب آ گئے
اس کے بعد اس کو اپنی پذیرائی سے خوف آنے لگا
ایک دن اس نے دیکھا کہ آنکھیں ہی آنکھیں ہیں دیوار میں
اور پھر اس کو اپنی ہی انگڑائی سے خوف آنے لگا
رفتہ رفتہ میں لوگوں سے کٹتا گیا، اور گھٹتا گیا
رفتہ رفتہ مجھے اپنی دانائی سے خوف آنے لگا
کیا زمانہ تھا اپنے ہی دیوار و در جانتے تھے مجھے
اب مجھے شہر بھر کی شناسائی سے خوف آنے لگا
اس طرح بوجھ ہٹتے رہے تو میں کاغذ سا ہو جاؤں گا
یار! مجھ کو تو تیری مسیحائی سے خوف آنے لگا
واحد اعجاز میر
No comments:
Post a Comment