Friday, 25 June 2021

ایسے منظر کھلے تھے کہ بینائی سے خوف آنے لگا

 ایسے منظر کھلے تھے کہ بینائی سے خوف آنے لگا

رات پہلی دفعہ مجھ کو تنہائی سے خوف آنے لگا

داستاں گو نے یوسف کا قصہ سنایا پڑاؤ کی شب

پھر نہ سویا کوئی، بھائی کو بھائی سے خوف آنے لگا

ایک دن یوں ہوا اس کے چہرے پہ تازہ گلاب آ گئے

اس کے بعد اس کو اپنی پذیرائی سے خوف آنے لگا

ایک دن اس نے دیکھا کہ آنکھیں ہی آنکھیں ہیں دیوار میں

اور پھر اس کو اپنی ہی انگڑائی سے خوف آنے لگا

رفتہ رفتہ میں لوگوں سے کٹتا گیا، اور گھٹتا گیا

رفتہ رفتہ مجھے اپنی دانائی سے خوف آنے لگا

کیا زمانہ تھا اپنے ہی دیوار و در جانتے تھے مجھے

اب مجھے شہر بھر کی شناسائی سے خوف آنے لگا

اس طرح بوجھ ہٹتے رہے تو میں کاغذ سا ہو جاؤں گا

یار! مجھ کو تو تیری مسیحائی سے خوف آنے لگا


واحد اعجاز میر

No comments:

Post a Comment