بھٹک گیا تھا کسی آنکھ میں قیام سے میں
نکل سکا نہ کبھی میکدے کی شام سے میں
وہ بات بات میں دنیا کی بات کرتا ہے
کلام کیسے کروں ایسے بد کلام سے میں
خدا کرے مجھے مرنے کا ڈھنگ آ جائے
گَلا رکھوں تِرے خنجر پہ احترام سے میں
یہ رات دن کے حوالے بھی اپنا شجرہ ہیں
تُو اجلی صبح سے ہے اور گہری شام سے میں
یہاں وہاں سے مِرے ٹکڑے دوڑ کر آتے
اگر پکارا گیا ہوتا تیرے نام سے میں
راکب مختار
No comments:
Post a Comment