Friday, 25 June 2021

بھٹک گیا تھا کسی آنکھ میں قیام سے میں

 بھٹک گیا تھا کسی آنکھ میں قیام سے میں

نکل سکا نہ کبھی میکدے کی شام سے میں

وہ بات بات میں دنیا کی بات کرتا ہے

کلام کیسے کروں ایسے بد کلام سے میں

خدا کرے مجھے مرنے کا ڈھنگ آ جائے

گَلا رکھوں تِرے خنجر پہ احترام سے میں

یہ رات دن کے حوالے بھی اپنا شجرہ ہیں

تُو اجلی صبح سے ہے اور گہری شام سے میں

یہاں وہاں سے مِرے ٹکڑے دوڑ کر آتے

اگر پکارا گیا ہوتا تیرے نام سے میں


راکب مختار

No comments:

Post a Comment