اجڑی ہوئی آنکھوں میں ستارے نہیں ملتے
دریائے محبت کے کنارے نہیں ملتے
اس دور میں اطفال کو بہلانے کی خاطر
بارود تو ملتا ہے، غبارے نہیں ملتے
مطلب ہو تو ہر موڑ پہ مل جاتے ہیں ہمدرد
مشکل میں کبھی یار پیارے نہیں ملتے
بیٹھے ہیں کوئی قاصدِ یار آئے ادھر بھی
مدت ہوئی مکتوب تمہارے نہیں ملتے
بہتا ہے لہو شہر کی ہر ایک گلی میں
آنکھوں کو گلستاں کے نظارے نہیں ملتے
اک درد کا مارا مِرے اندر ہی چھپا ہے
اور اس کو کہیں درد کے مارے نہیں ملتے
خلیل احمد
No comments:
Post a Comment