Friday, 25 June 2021

اجڑی ہوئی آنکھوں میں ستارے نہیں ملتے

 اجڑی ہوئی آنکھوں میں ستارے نہیں ملتے 

دریائے محبت کے کنارے نہیں ملتے 

اس دور میں اطفال کو بہلانے کی خاطر 

بارود تو ملتا ہے، غبارے نہیں ملتے 

مطلب ہو تو ہر موڑ پہ مل جاتے ہیں ہمدرد 

مشکل میں کبھی یار پیارے نہیں ملتے 

بیٹھے ہیں کوئی قاصدِ یار آئے ادھر بھی 

مدت ہوئی مکتوب تمہارے نہیں ملتے 

بہتا ہے لہو شہر کی ہر ایک گلی میں 

آنکھوں کو گلستاں کے نظارے نہیں ملتے 

اک درد کا مارا مِرے اندر ہی چھپا ہے 

اور اس کو کہیں درد کے مارے نہیں ملتے


خلیل احمد

No comments:

Post a Comment