یاد کرنے کا تمہیں کوئی ارادہ بھی نہ تھا
اور تمہیں دل سے بھُلا دیں یہ گوارا بھی نہ تھا
ہر طرف تپتی ہوئی دُھوپ تھی اے عمر رواں
دور تک دشت الم میں کوئی سایا بھی نہ تھا
مشعل جاں بھی جلائی نہ گئی تھی ہم سے
اور پلکوں پہ شب غم کوئی تارا بھی نہ تھا
ہم سرِ راہِ وفا اس کو صدا کیا دیتے
جانے والے نے پلٹ کر ہمیں دیکھا بھی نہ تھا
ہو گئی ختم سرابوں میں بھٹکتی ہوئی زیست
دل میں حسرت ہی رہی دشت میں دریا بھی نہ تھا
کس خموشی سے جلا دامنِ دل اے گلنار
کوئی شعلہ بھی نہ تھا کوئی شرارا بھی نہ تھا
گلنار آفرین
No comments:
Post a Comment