Saturday 26 June 2021

ہیجڑی سوچ ہوتی ہے میں سمیرا ہوں پانی پہ بنی تصویر

”عبدالسمیرا شہید“


ہیجڑی، سوچ ہوتی ہے

میں سمیرا ہوں

پانی پہ بنی تصویر

مجبوری میں سستے داموں بیچا گوہر

شیشے میں سنورتے ہوئے شرماتی ہوں

خواجگی متروک ہوئی

سراء باقی رہ گیا

کچی دیواروں پہ پلستر

ہو بھی جائے تو رُکتا نہیں ہے

ہاہاہا

ہائے اللہ

قدموں میں جنت کی دعوے دار نے

مجھے ممتا سے عاق کر دیا

رشتوں کی پتنگ ہمیشہ

ہاتھ سے ہی کیوں ٹوٹتی ہے؟

مجھے جس ماں نے پالا ہے

وہ کبھی بیوی نہیں بنی

ہائے وے

باپ نے پگڑی سے پھانسی دے کر

مردانگی کو انچ سے مانپنے کا پیمانہ ایجاد کیا

دیواریں پھلانگنے والے

روایت پھلانگ نہیں سکے

سرِ راہ بچوں کو پیسے دے کر

“امی” کہلوانا“

یا یونہی رعب ڈال کر

باپ بننا

نامکمل وجود میں

مکمل جذبات

دوہری اذیت ہیں

وے، ہم نظر آتے ہیں

گنتی میں کیوں نہیں آتے؟

جیسے کوئی بچے کو ہوا میں اچھال کر

ہاتھ پیچھے کر لے

ہمارے ساتھ رسمی مذاق ہوا ہے

کانوں نے گالیاں سنی ہیں

ہونٹوں نے اذیت سہی ہے

غم چھپاتے چھپاتے بگڑے ہیں

ہم ہیجڑے ہیں

ہائے اللہ

احد

تم بھی اکیلے ہو؟

الصمد

میں نہیں ہوں، تالی

تالی، جو رب کی دی ہوئی نعمتوں میں

سب سے افضل ہے

لم یلد

پھر تم نہیں جانتے

خون کے رشتوں کا

خونی رشتے ہونا کیا ہے؟

ولم یلد

یہ صفت مشترک ہے

“ہر چیز کو جوڑوں میں پیدا کیا”

تالی، ہا ہا ہا

ٹھمکا، کتھاکلی، کتھک، ٹھمری، دادرا

تالی، غازہ، سُرخی، کاجل

حصول رزقِ حلال عین عبادت ہے

دیکھے ہیں صاحبِ دستار بھی

کہ جس نے مجھے لیٹاتے ہوئے کہا

ادھر ٹانگیں مت کرو

قبلہ ہے

کیمرہ دیکھ کے رکنے والے

البصیراً کہتے ہیں تو

ہنستی ہوں

تُم کس قدر حسیِن ہو سمیرا

اس سے پہلے کہ کوئی اشرف المخلوق

تمہیں زندہ جلا دے

گلے پر سرخی پھیر کر

خود میں سما جاؤ

وصیت کرو

کہ قبر کے کتبے پہ لکھا جائے

“عبدالسمیرا شہید”

زندگی ایک فلم ہے جس میں میرا کردار

چائے پیش کر کے برتن اٹھا لانا ہے 


سہیل کاہلوں

No comments:

Post a Comment