اسے یقین نہ آیا مِری کہانی پر
وہ نقش ڈھونڈ رہا تھا گزرتے پانی پر
سفینے تھک کے تہِ آب ہو گئے سارے
ہُنر کھُلا نہ ہواؤں کا بادبانی پر
میں سخت جان تھا ایسا کہ چیخ بھی نہ سکا
فغاں فغاں تھی جہاں مرگ ناگہانی پر
میں آسماں کو سمجھتا رہا حریف اپنا
گیا نہ دھیان کبھی اس کی بے کرانی پر
مجیبی چپ سی یہ کیوں لگ گئی زمانے کو
کہاں گئے وہ جو نازاں تھے خوش بیانی پر
صدیق مجیبی
No comments:
Post a Comment