اس درجہ انہماک سے محو دعا ہوں میں
اپنی لحد کے پاس ہی گویا کھڑا ہوں میں
اس جرم کی سزا مجھے دینے سے پیشتر
یہ بھی تو دیکھ مجرم قتلِ انا ہوں میں
ہمزاد سے میں بھاگتا پھرتا ہوں اس لیے
اپنا عدو ہے کون، کہاں جانتا ہوں میں
لیکن ہے شرط ہوش کے ناخن تو لے کوئی
اترے نہ روز حشر تک ایسا نشہ ہوں میں
آخر کوئی جواز بھی مجھ سے گریز کا
اے کم نگاہ دیکھ تِرا آئینہ ہوں میں
یہ رہبروں کا فیض ہے یا اپنی گمرہی
جانا کہاں تھا اور کدھر جا رہا ہوں میں
یعقوب پرواز
No comments:
Post a Comment