وصالِ یار اب تو خواب ہوتا جا رہا ہے
یہ دل اس کے لیے بے تاب ہوتا جا رہا ہے
یہ کیسا دشتِ حیرت ہے جہاں ہم آ گئے ہیں
کہ پیاسا دُھوپ میں سیراب ہوتا جا رہا ہے
بہت سے لوگ جائیں گے اسے اب ڈھونڈنے کو
وفا کا نام بھی نایاب ہوتا جا رہا ہے
مجھے اس عہد کا سقراط سمجھا جا رہا ہے
کہ ہر اک جام اب زہراب ہوتا جا رہا ہے
نجانے کب تلک یونہی قرنطینہ رہے گا
رقم جاوید، پھر اک باب ہوتا جا رہا ہے
جاوید ڈینیئل
No comments:
Post a Comment